Skip to main content

module

جوائنٹ فیملی: زیادہ تر انڈین مشترکہ خاندان میں رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟

ناول نگار وی ایس نیپاول لکھتے ہیں کہ انڈین خاندان ایک قبیلے کی طرح تھا جو اپنے سے منسلک افراد کو تحفظ اور شناخت فراہم کرتا تھا اور لوگوں کو خالی پن سے بچاتا تھا۔

تازہ تحقیق کے مطابق اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ معاشی ترقی، بڑھتی ہوئی اربنائزیشن (دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی) تعلیم اور ثقافتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خاندانی نظام آہستہ آہستہ تحلیل ہو جائے گا۔

کورنل یونیورسٹی سے منسلک ڈیموگرافر ایچیئن برنٹن کی تحقیق کے مطابق انڈین خاندان ایسی صورتحال سے ابھی بہت دور ہیں۔ ایچیئن برنٹن نے جدیدیت اور گھروں میں ہونے والی تبدیلیوں کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا ہوا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ایسے خاندانوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا ہے جو صرف ماں باپ اور بچوں پر مشتمل ہیں۔ ایسے خاندانوں کو نیوکلیئر فیملی بھی کہتے ہیں۔

اس بات کے بھی شواہد نہیں ہیں کہ بیسویں صدی کے آغاز سے اب تک انڈیا میں گھرانوں کے اوسط سائز میں کوئی بڑی کمی ہوئی ہے۔ انڈین میں شادی کرنے کا رواج عام ہے، طلاق کی شرح کم ہے اور ایسے گھروں کی تعداد کافی کم ہے جہاں غیر شادی شدہ اور بغیر بچوں والے افراد رہتے ہیں۔ مشترکہ خاندان والے گھرانوں کے لیے آبادی کی نوعیت کے اعتبار سے حالات موافق ہیں۔

ڈاکٹر برینٹن کہتی ہیں کہ ’انڈیا نے خاندانی تبدیلیوں کے بارے میں سمجھ کو بھرپور طریقے سے چیلنج کیا ہے۔‘ ان کی تازہ تحقیق میں ایسے خاندانوں کا جائزہ لیا گیا ہے جہاں والدین اپنے شادی شدہ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

مشترکہ خاندان
،تصویر کا کیپشنانڈیا میں مشترکہ خاندانی نظام میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے

انڈیا میں خواتین خاندان کو صرف اپنے بل بوتے پر علیحدہ نہیں کر سکتیں لیکن وہ اپنے شوہر کے فیصلے پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔

انڈیا میں ایک نیوکلیئر گھرانہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب بیٹے اپنے والد کی وفات سے پہلے اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔ جب والدین میں سے کسی ایک کا انتقال ہو جائے تو بیٹے اپنی بیوہ ماں یا باپ کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں چاہے وہ علیحدہ ہی کیوں نہ رہ رہے ہوں۔

انڈیا کے ادارے نیشنل سیمپل سروے (این ایس ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کا 50 فیصد اس وقت شادی شدہ ہے اور لگ بھگ 45 فیصد کے، جن میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے، شریکِ حیات فوت ہو چکے ہیں۔ اکیلی رہ جانے والی 80 فیصد خواتین یا افراد اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

لیکن 40 فیصد بوڑھے جوڑے یا تو بچوں کے بغیر رہتے ہیں یا اپنے غیر شادی شدہ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن اس تعداد میں اضافہ بہت سست ہے۔ گذشتہ 25 برسوں میں اس میں صرف چھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ڈاکٹر برینٹن کا کہنا ہے کہ یہ نیوکلیئر گھرانوں میں معمولی اضافے کی بہترین مثال ہے۔

نوجوانوں کی اپنے والدین کے ساتھ رہنے کی ایک بڑی وجہ عمروں میں اضافہ ہے۔ سنہ 2020 میں سنہ 1980 کے مقابلے میں ایک 30 برس کے آدمی کے اپنی والدہ یا والد کے ساتھ رہنے کا امکان زیادہ ہے۔

اربنائیزیشن کی سست رفتار بھی ایک وجہ ہے۔ انڈیا میں آبادی کا 35 فیصد شہروں میں رہتا ہے جبکہ چین میں 60 فیصد لوگ شہروں رہتے ہیں۔

مشترکہ خاندان

لندن کے کنگز کالج سے منسلک سماجی امور کی ماہر ایلس ایونز، جو صنفی برابری پر ایک تحقیقی کتاب لکھ رہی ہیں، سمجھتی ہیں کہ انڈیا میں لوگوں کے جوائنٹ فیملی یا مشترکہ خاندان میں رہنے کی وجہ یہ ہے کہ خاندان کے افراد کے آپس میں مضبوطی سے جڑے رہنے سے خاندانی کاروبار میں مدد ملتی ہے اور اس سے خواتین کو نوکری کی ضرورت نہیں پڑتی جس کے نتیجے میں خاندانی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک وجہ یہ ہے کہ زیادہ اخراجات کی بنا پر اکیلے رہنا مشکل ہوتا ہے۔ جبکہ مشترکہ طور پر رہنے میں اخراجات تقسیم ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ایونز کہتی ہیں کہ یہ صورتحال صرف انڈین گھرانوں تک ہی محدود نہیں۔ سنہ 1900 میں تقریباً تمام چینی، جاپانی، کوریائی اور تائیوانی خاندان بھی اسی طرح مشترکہ طور پر رہتے تھے۔ کسی میاں بیوی کا اپنے بچوں کے ساتھ الگ رہنا بہت ہی کم تھا۔

ڈاکٹر ایونز نے مجھے بتایا ’مشرقی ایشیائی گھرانوں میں بھی انڈیا کی طرح مضبوط تعلقات ہوتے تھے۔ تاہم 20ویں صدی میں ان لوگوں میں مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹتا گیا۔ جس کی وجوہات میں خاندان سے باہر روزگار، دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت اور خواتین کا روزگار کمانا شامل ہیں۔‘

ڈاکٹر ایونز کا کہنا تھا کہ ان ممالک میں لوگ اب بھی اپنے والدین کی مدد کرتے ہیں لیکن یہ کام وہ ان کے ساتھ رہ کر نہیں بلکہ انھیں رقوم بھیج کر کرتے ہیں۔

خواتین کا روزگار کمانا بھی مشترکہ خاندانوں کے ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ تاہم مشرقی ایشیا میں دونوں طرح کا خاندانی نظام آج بھی قائم ہے۔ یعنی ایسے گھر جہاں میاں بیوی اپنے بچوں کے ساتھ علیحدہ رہتے ہیں اور ایسے گھر بھی ہیں جہاں بچوں کے دادا دادی یا نانا نانی بھی ساتھ رہتے ہیں۔

گذشتہ صدی سے جاپان، کوریا، تائیوان، اور چین میں خواتین بڑی تعداد میں کام پر جا رہی ہیں۔ میاں بیوی دونوں نے روزگار کما کر معاشی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

مشترکہ خاندان

اس معاشی آزادی کے ساتھ خواتین کم بچے پیدا کرتی ہیں جس کی وجہ سے انھیں گھر سے باہر جا کر کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ایونز کے مطابق جنوبی ایشیا میں صورتحال اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہاں خواتین کا روزگار کمانا غربت اور محرومی سے منسلک ہے۔

’دیہی علاقوں میں خواتین کو مزدوری نہ کرنے کی صورت میں سماج میں بہتر مقام حاصل ہوتا ہے۔ یہ صورتحال مغربی یورپ میں صنعتی انقلاب کے ابتدائی زمانے جیسی ہے۔ اگر دیہی خواتین کام کرنا بھی چاہیں تو کاشت کاری میں مشینوں کے آ جانے سے ان کے لیے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ خواتین کی روزگار کمانے میں کم شرکت کا مطلب ہے کہ نوجوان جوڑوں کی معاشی آزادی حاصل نہیں ہو گی۔‘

ڈاکٹر ایونز کہتی ہیں کہ اگر خواتین روزگار کے لیے باہر نہیں جا رہیں اور اپنے سماجی نیٹ ورک کو وسیع نہیں کر پا رہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ جڑی رہیں گی۔

انڈیا کی مجموعی قومی پیداوار کو دیکھیں تو یہ صورتحال کوئی غیر معمولی نہیں ہے۔ اوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں خاندانوں کا مشترکہ طور پر رہنا زیادہ عام ہے۔

سٹیون رگلز اور مسٹی ہیگنز نے 15 ممالک کے مردم شماری کے اعداد وشمار کا مطالعہ کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نسلوں سے مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کے رحجان میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی ہے۔

پھر بھی یہ ایک ارتقائی عمل سے گزرتے لیکن پیچیدہ انڈین خاندان کی کہانی پوری طرح بیان نہیں کرتا۔

سماجی امور کی ماہر تلسی پٹیل نے انڈین خاندانوں پر بہت لکھا ہے، وہ کہتی ہیں کہ انڈیا میں کسی نیوکلئیر خاندان کی تشریح کرنا بھی کبھی کبھار مشکل ہوتا ہے۔

’والدین اکثر اپنے ایک بیٹے کے گھر سے دوسرے بیٹے کے گھر منتقل ہوتے رہتے ہیں تا کہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گزار سکیں اور ان کی خدمت کا کام بھی بیٹوں میں تقسیم ہو سکے۔‘

ڈاکٹر پٹیل نے کہا کہ آپ کیسے اس تبدیل ہوتے مشترکہ خاندان کو بیان کریں گے جہاں والدین کبھی ایک گھر میں تو کبھی دوسرے گھر میں منتقل ہوتے رہتے ہوں۔